ایک گھنے جنگل میں بندروں کا ایک گروہ رہتا تھا۔ بندروں کا بادشاہ بہت عقلمند تھا۔ ایک دن اس نے اپنے گروہ کو اکٹھے بلایا۔
‘میرے پیارے بندرو ہم خوش قسمت ہیں کہ اس خوبصورت جنگل میں رہتے ہیں لیکن خبردار! درخت اور پودے ہرے بھرے اور سرسبز ہو سکتے ہیں لیکن ان میں بہت سے زہریلے پھل ہوتے ہیں۔ تالاب صاف، چمکتا ہوا پانی ہو سکتے ہیں لیکن ان میں سے ایک میں بھوت رہتا ہے۔ اس لیے پہلے مجھ سے پوچھے بغیر کچھ نہ کھاؤ اور نہ پیو۔’
اگلے دن ایک بندر کو پیاس لگی۔ اسے بادشاہ کی بات یاد آئی اور وہ اس سے بات کرنے چلا گیا۔
‘بچے فکر نہ کرو!’ بادشاہ نے کہا۔ ‘میں تالاب کی چھان بین کروں گا کہ یہ محفوظ ہے’۔
جب وہ تالاب کے قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ بڑے بڑے قدم اندر جا رہے ہیں لیکن باہر نہیں آرہے ہیں۔ بادشاہ نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں بھوت چھپا ہوا تھا۔ سب بندر رونے لگے، اس فکر میں کہ وہ پانی کیسے پئیں گے۔ بادشاہ نے انہیں تسلی دی اور بھوت کا مقابلہ کرنے چلا گیا۔
بھوت نے قہقہہ لگایا، ‘تم بڑے مخمصے میں ہو، بندر بادشاہ! اگر تمھارے بندر تالاب میں آئے تو میں انہیں کھا لوں گا۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو وہ پیاس سے مر جائیں گے!’
بادشاہ نے سوچا،’ مجھے کوئی حل تلاش کرنا چاہیے۔’
اس نے اپنے بندروں سے بانس کے ٹکڑے جمع کرنے کو کہا۔ کھوکھلی بانس کی چھڑیوں کو آپس میں جوڑ کر اس نے ایک بڑا پائپ بنایا جو تالاب کا پانی چوستا تھا۔ بندر اپنے دل کی خواہش کے مطابق پینے کے قابل تھے۔