شب قدر وہ رات ہے کہ جو ایمان والوں کے لئے مغفرت اور رحمت کا پیغام لے کر آتی ہے اس رات میں اللہ کی رحمت کے دروازے کھلے ہوتے ہیں
رمضان المبارک اپنی برکات اور سعادتوں کو سمیٹتے اپنے اختتام کی طر ف بڑھ رہا ہے۔دنیا بھر کے مسلماناس ماہ مبارک کی ابدی سعادتوں سے بہر مند ہو رہے ہیں۔روزہ اور دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اپنی حاضری پیش کر رہے ہیں۔اپنے گناہوں کی معافی مانگی جارہی ہے۔ طویل قیام و سجود سے اپنے خالق و مالک کو راضی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دریا بھی جوش پر ہے ایک عمل کا اجر ستر گنا عطا کیا جارہا ہے۔ گناہ معاف کئے جارہے ہیں درجات بلند ہو رہے ہیں اس حسین ماحول میں ایک عظیم رات کا تذکرہ بہت مناسب ہو گا جس کا ذکر خود اللہ رب العزت نے اپنے کلام پاک میں کیا ہے۔ ماہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں مستور یہ عظیم رات گناہ گاروں کی مغفرت کی رات ہے مجرموں کی جہنم کی آگ سے آزادی کی رات ہے۔
یہ عبادت ، ریاضت ،تسبیح و تلاوت ، درود شریف کی کثرت، نوافل، صدقات ، خیرات ، عجز و نیاز مندی، مراقبہ و احتساب عمل کی رات ہے۔ اس رات کو شب قدر اسی لئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک بڑی قدر و منزلت والی کتاب ایک بڑی قدر و منزلت والے رسولﷺ پر ایک بڑی قدرو منزلت والی امت کی راہنمائی و اصلاح کے لئے نازل فرمائی۔ چونکہ اس شب میں اعمال صالحہ قبول ہوتے ہیں اور بارگاہ رب العزت میں انکی بہت قدر کی جاتی ہے اس لئے اس کو شب قدر کہتے ہیں۔
یوں تو مختلف مقامات پر شب قدر کی فضیلت کے متعلق متعدد ارشادات موجود ہیں لیکن چونکہ اس پر اللہ کریم نے خود سورة اتاری ہے اور اس کے سارے فضائل خود رب العزت نے بیان فرما دئے ہیں تو مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے اس سورة کا ذکر ہو جائے جو اس موقع پر نازل ہوئی۔اس سورة مبارکہ میں ارشاد ہوا (ترجمہ) بے شک ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں اتارا اور آپ نے کیا جانا کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے اور اس رات میں فرشتے اور روح (جبریل امیں) اپنے پروردگار کے حکم سے امر خیر کیلئے اترتے ہیں یہ رات طلوع فجر ہونے تک سراسر سلامتی ہے (سورة قدر)
83 سال چار ماہ کی عبادت:
اس سورة مبارکہ سے معلوم ہو اکہ اس کی ایک رات کی عبادت ایک ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔
امت محمدیہ پر اللہ کریم کا یہ فضل عظیم ہے کہ اس میں ایک ایسی رات ہے جس میں اگر خشوع و خضوع سے عبادت کی جائے تو اس کا اجر ۸۳ سال ۴ ماہ کی مسلسل اور بے ریا عبادت سے زیادہ ہے۔اس آیت طیبہ میں عبادت کے اجر کو اس حد تک محدود نہیں کیا بلکہ اس کی حدود کا تعین اپنے پاس رکھتے ہوئے اس سے بھی زیادہ اجرو ثواب عطا ہو سکتا ہے۔ اس ضمن میں مختلف مفسرین کی آراء موجود ہیں جن کو پڑھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جو شخص جتنا زیادہ خشوع وخضوع سے اللہ کی عبادت کرے گا اس کے اجر میں اتنا اضافہ ہو گا۔
سورة قدر کا شان نزول:
لیلة القدر کے حوالے سے نازل ہونے والی اس سورة کے شان نزول کے حوالے سے مختلف روایات موجود ہیں۔ سرکار دوعالمﷺ نے سنا کہ صحابہ کرام سابقہ امتوں کے لوگوں کی عمروں کی طوالت کی بابت گفتگو کر رہے تھے اور اس بات پر مغموم تھے کہ ان کی عمریں سب سے کم ہیں۔ سابقہ امتوں کے لوگ اعمال میں ابن پر سبقت لے جائیں گے اور بعض جگہ یہ بھی ذکر ہے کہ
رسو ل اللہ ﷺ نے خود خیال فرمایا کہ میری امت کے لوگوں کی عمریں کم ہیں تو اعمال میں دیگر امتوں کے لوگ سبقت لے جائیں گے جس پر اللہ کریم نے یہ آیات نازل فرمائیں اگر ان آیات کے مضامین کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جائے توکچھ یوں ہو گا
1۔
اللہ کریم نے اس رات وہ کتاب نازل فرمائی جو بنی نوع انسان کی ہدایت کیلئے ہے اور ان کے لئے دنیوی و اخروی سعادت کا سامان ہے۔
2۔اس سورة مبارکہ میں لیلة القدر کی فضیلت کو سوالیہ انداز میں بیان کیا گیا ہے اور اس کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے
3۔اس میں امت مسلمہ کو خوشخبری دی گئی کہ اگر تم اس ایک رات میں عبادت کرو گے تو آپ کو ہزار مہینوں کا اجرو ثواب ملے گا۔
4۔اس رات میں فرشتے نازل ہوتے ہیں اور اللہ کی طرف سے خیر و برکت لے کر آتے ہیں اور یہ سلسلہ طلوع فجر تک جاری رہتا ہے
شب قدر کی علامات:
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے کی جانے والی ایک روایت میں شب قدر کی درج ذیل علامات بیان کی گئی ہیں
#یہ رات چمک دار اور صاف ہوتی ہے۔ نہ زیادہ گرم اور نہ زیادہ سرد بلکہ خوشبو دار اور معتدل ہوتی ہے۔
#اس رات میں آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنے سے دل میں سرور کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔#اس رات میں شیاطین کو آسمان سے پتھر نہیں مارے جاتے
#شب قدر کے بعد آنے والی صبح کے سور ج میں گرمی اور تیزی نہیں ہوتی۔ # بعض بزرگوں نے اس رات میں درختوں کو سجدہ کرتے بھی دیکھا ہے جبکہ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس رات میں کھارا پانی میٹھا ہوجاتا ہے۔
شب قدر پوشیدہ کیوں؟اللہ تعالیٰ اور اس کے پیار ے حبیبﷺکاکوئی بھی کام خالی از حکمت نہیں ہوتا مختلف علما نے مختلف حکمتیں بیان فرمائی ہیں لیکن یہاں پر صاحب ضیاء القرآن حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری کی تحریر کردہ حکمتیں بیان کرنے پر اکتفا کروں گا جو انہوں نے ضیاء القرآن کی جلد پنجم میں تحریر فرمائی ہیں۔
آپ فرماتے ہیں کہ ”اسکو متعین نہ کرنے میں بھی کئی حکمتیں ہیں تاکہ مسلمان اس رات کی تلاش میں زیادہ نہیں تو کم ازکم پانچ طاق راتیں اللہ تعالیٰ کے ذکر ا ور عبادت میں گزاریں۔ اگر رات متعین کر دی جاتی تو لوگ صرف اسی رات کو جاگتے اور عبادت کرتے نیز اگر اس رات کو مقرر کر دیا جاتا تو اسے ذکر و عبادت میں گذارنے والے تو اجر عظیم کے مستحق قرار پاتے لیکن اسے گناہوں میں صرف کرنے والے بھی سنگین سزا میں مبتلا کئے جاتے کیونکہ انہوں نے شب قدر کو جانتے ہوئے اسے خدا کی نافرمانی میں ضائع کر دیا۔
اس لئے رحمت خداوندی کا تقاضا یہی ہے کہ اسے مستور رکھا جائے۔تاکہ اگر کوئی بد نصیب بے خبری میں اس رات کو گناہوں کی بھینٹ چڑھتا ہے توا سے گناہ ایک رات کا ملے اور جاگنے والے زیادہ راتیں جاگتے رہیں“۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ (ترجمہ) لیلة القدر جبریل علیہ السلام فرشتوں کے جم غفیر کے ساتھ زمین پر اترتے ہیں اور فرشتوں کا یہ گروہ ہر اس بندے کے لئے دعائے مغفرت اور التجائے رحمت کرتا ہے جو کھڑے ہوتے ہیں یا بیٹھے ہوتے ہیں اور اللہ کے ذکر میں مصروف ہوں ایک اور روایت میں ہے کہ ان لوگوں سے مصافحہ کرتے ہیں جو اللہ کی عبادت میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔
حضور اکرمﷺرمضان المبارک کے آخری عشرہ کیلئے خصوسی اہتمام فرماتے ۔ بخاری و مسلم میں حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ سرکار دوعالمﷺ کا یہ معمول تھا کہ جب آخری عشرہ شروع ہوتا تو آپ اپنا تہبند کس کر باندھ لیتے راتوں کو ذکر الہی سے زندہ کرتے اور اپنے اہل و عیال کو بھی جگاتے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت میں ارشاد ہے کہ حضور اکرم ﷺ جتنا مجاہدہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں کرتے اتنا کسی اور عشرہ میں نہ کرتے۔
بخاری و مسلم کی ہی ایک اور روایت میں ہے کہ سرکارو دوعالمﷺ نے فرمایا جس شخص نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے شب قدرمیں قیام کیا اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں۔
ابن ماجہ کی ایک روایت ہے کہ سرکار دوعالمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو مہینہ تم پر آیا اس میں ایک رات ایسی ہے کہ جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، جو شخص اس کی سعادت حاصل کرنے سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا۔
نیز فرمایا کہ لیلة القدر کی سعاد ت سے صرف بد نصیب محروم رہ سکتا ہے۔
ابن ماجہ میں ہی ایک اور روایت ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ سرکار دوعالمﷺرمضان المبارک کے آخری عشرہ میں باقی دنوں سے بہت زیادہ کوشش فرماتے تھے۔ غنیة الطالبین میں حضرت سیدنا عبدا لقادر جیلانی محبوب سبحانی ارشاد فرماتے ہیں کہ لیلة القدر میں زمین کا کوئی ٹکڑا ایسا نہیں ہوتا جہاں فرشتے سجدہ یا قیام کی حالت میں مومن مردوں یا عورتوں کے لئے دعا نہ مانگ رہے ہوں۔
حضرت جبریل علیہ السلام زمین پر اترتے ہیں تمام مومنین سے مصافحہ کرتے ہیں سلام کہتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ اگر تم اطاعت گزار ہو تو تم پر قبولیت اور احسان کے ساتھ سلامتی ہو۔اگر تم گناہ گار ہو تو تم پر بخشش کے ساتھ سلامتی ہو۔اگر تم سو رہے ہو تو تم پر رضاء الہی کے ساتھ سلام ہو اگر تم قبر میں ہو تو تم پر خوشی اور خوشبوکے ساتھ سلام ہو۔
شب قدر وہ رات ہے کہ جو ایمان والوں کے لئے مغفرت اور رحمت کا پیغام لے کر آتی ہے اس رات میں اللہ کی رحمت کے دروازے کھلے ہوتے ہیں جو رزق مانگتا ہے ا سکو رزق عطا کیاجاتا ہے جو عافیت مانگتا ہے اس کو عافیت عطا کی جاتی ہے اور جو صحت کا سوال کرتا ہے اللہ کی بارگاہ سے اسکو صحت کا تحفہ عطا ہوتا ہے۔ جو خیر و برکت اور بھلائی کی دعا مانگرا ہے اس کو خیر اور بھلائی عطا کی جاتی ہے۔
اگر کوئی بے اولاد اس عظیم رات میں اولاد کیلئے دست سوال دراز کرتا ہے تو اسکو اولاد کی دولت سے مالامال کیا جاتا ہے۔ یہ وہ معظم رات ہے جو میں اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق جلوہ گر ہوتے ہیں اور دوسری طرف فرشتے روئے زمین پر گلی گلی ہر کوچے میں پھیل جاتے ہیں اللہ کی رحمت پکار پکار کر کہہ رہی ہوتی ہے کہ ہے کوئی بخشش طلب کرنے والا کہ اس کو بخش دوں۔
ہے کوئی مغفرت چاہنے والا کہ اس کو معاف کر دوں۔ یہ عمل طلوع فجر تک جاری رہتا ہے اور خوش نصیب اپنی خالی جھولیاں بھر کر لے جاتے ہیں۔
شب قدر کی اصل عبادت رات کا قیام یعنی نماز ہے۔ اس رات کو جتنا ممکن ہو سکے قیام کرنا چاہئیے۔ اللہ کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر فرض، نفل نمازیں ادا کرنی چاہئیں ۔اس رات کے اندر بندہ مومن کو چاہئیے کہ وہ خوب توبہ واستغفار کرے۔
اپنے صغیرہ و کبیرہ گناہوں کی معافی طلب کرے اوراپنی لغزشوں پر ندامت کا اظہار کرے۔
شب قدر کی خاص دعا:
اس عظیم رات کی ہر گھڑی قبولیت سے مالا مال ہوتی ہے۔ ہر لمحہ اللہ کریم کی توجہ اوررحمت کا دریا جوبن پر ہوتا ہے لہذا ہمیں پورے ذوق و شوقت کے ساتھ دعا مانگنے کا اہتمام کرناچاہئے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے اللہ کے پاک نبی کی خدمت میں عرض کی یا رسول اللہﷺ اگر مجھے لیلة القدر نصیب ہو تو میں کیا دعا مانگوں تو حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ۔
یو ں دعا کرو( ترجمہ) اے اللہ ! تو بے شک معاف فرماے والا کریم ہے معاف فرمانے کو پسند کرتا ہے ہمیں بھی معاف فرما“۔ یہ ایک جامع دعا ہے جو ام المومنین رضی اللہ عنہ کے ذریعہ سے رسول اللہﷺ نے خود تعلیم فرمائی۔
شب قدر کا غالب امکان:
بعض صوفیاء کرام کا تو یہ فرمانا ہے کہ شب قدر سارا سال گھومتی رہتی ہے لیکن احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہو تی ہے کہ شب قدرر مضان المبارک کی آخری طاق راتوں میں پائی جاتی ہے۔
اور غالب گمان یہ ہوتا ہے کہ ستائیسویں رمضان کی شب ، شب قدر ہے۔ لہذا ہمیں رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں کو جاگ کر خصوصی اہتمام کرنا چاہئیے تاکہ اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پائیں۔اللہ کریم اور رسول کریمﷺ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔