ابن اسحاقکا بیان ہے کہ ایک دفعہ اراش کا ایک شخص کچھ اونٹ لے کر مکہ آیا۔ ابو جہل نے اس کے اونٹ خرید لیے اور جب اس نے قیمت طلب کی تو ٹال مٹول کرنے لگا۔ اراشی نے تنگ آ کر ایک روز حرم مکہ قریش کے سرداروں کو جا پکڑا اور مجمع عام میں فریاد شروع کر دی۔
دوسری طرف حرم کے ایک گوشے میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے۔ سرداران قریش نے اس شخص سے کہا ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ دیکھو وہ صاحب جو اس کونے میں بیٹھے ہیں ان سے جا کر کہو وہ تم کو تمہارا روپیہ دلوا دیں گے۔ اراشی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چلا اور قریش کے سرداروں نے آپس میں کہا آج مزہ آئے گا۔
اراشی نے جا کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی شکایت بیان کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ساتھ لے کر ابو جہل کے مکان کی طرف روانہ ہوگئے۔ سرداروں نے پیچھے ایک آدمی لگا دیا کہ جو کچھ گزرے، اس کی خبر لا کر دے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدھے ابو جہل کے دروازے پر پہنچے اور کنڈی کھٹکھٹائی۔ اس نے پوچھا کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا: “محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم” وہ حیران ہو کر باہر نکل آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا اس شخص کا حق ادا کر دے۔
اس نے جواب میں کوئی دوسری بات نہ کی۔ سیدھا اندر گیا اور اس کے اونٹوں کی قیمت لا کر اس کے ہاتھ میں دے دی۔ قریش کا مقبر یہ حال دیکھ کر حرم کی طرف دوڑا اور سرداروں کو سارا ماجرا سنا دیا اور کہنے لگا کہ واللہ آج وہ عجیب معاملہ دیکھا ہے جو کبھی نہ دیکھا تھا۔
ابو جہل جب نکلا تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتے ہی اس کا رنگ فق ہو گیا اور جب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے کہا کہ اس کا حق ادا کر دے تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے اس کے جسم میں جان ہی نہیں ہے۔
[…] کفار مکہ کا سرور عالم ﷺ سے استہزا کا ایک واقعہ […]